دفاعی بجٹ یا عوام کا درد؟
دفاعی بجٹ یا عوام کا درد؟
Marukhelk:تحریر
ہر سال بجٹ آتا ہے، ٹی وی چینلز پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے، اخبارات کی شہ سرخیاں بنتی ہیں، وزراء تقریریں کرتے ہیں، لیکن جب ایک غریب ماں اپنے بچے کو بھوکا سُلاتی ہے، تو اُس کے لیے یہ بجٹ کے اعداد نہیں — وہ صرف ایک روٹی مانگتی ہے۔
اس سال بھی دفاعی بجٹ میں اربوں روپے رکھے گئے۔ ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے، ان کی قربانیاں ہمارے لیے قابلِ عزت ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ریڑھی والے کی دو وقت کی روٹی کیوں خواب بن گئی؟ کیا اُس کا درد بجٹ کا حصہ نہیں؟ کیا اُس کا جینا جرم ہے؟
عوام صرف ایک ہی فریاد کرتی ہے: ہمیں جینے کا حق دو! ہمیں تعلیم دو، دوا دو، روزگار دو، پانی دو، انصاف دو۔ اگر ایک باپ دن رات مزدوری کر کے بچوں کو پال رہا ہے، تو وہ بھی اپنے خاندان کا محافظ ہے — کیا وہ کم سپاہی ہے؟
سوال یہ ہے:
- ● کیا صرف ٹینک اور میزائل خرید کر ملک بچایا جا سکتا ہے؟
- ● جب بچہ اسکول چھوڑ دے، تو کیا ہم ترقی کہہ سکتے ہیں؟
- ● جب نوجوان بھوک سے خودکشی کرے، تو کیا بجٹ کامیاب ہے؟
یہ بجٹ عوام کا ہے یا ایوانوں کا؟ اشرافیہ کے دسترخوان بھر جائیں اور غریب کے چولہے ٹھنڈے رہیں، تو یہ صرف اعداد کا کھیل ہے، انصاف نہیں۔ ہر سال غریب سے کہا جاتا ہے: "صبر کرو" — لیکن بھوک کب تک صبر کرے؟
حکومتوں کو سمجھنا ہوگا کہ قومیں صرف میزائلوں سے نہیں بچتیں، بلکہ انصاف، روٹی، تعلیم اور رحم سے زندہ رہتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہو، تو قومیں بھوک سے مر جاتی ہیں، اور تاریخ اُنہیں بھول جاتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں