بغداد کا واقعہ: صبر اور ہمت کا پھل
بغداد کے ایک چھوٹے سے محلے میں ایک غریب عورت رہتی تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ کے پاس زیادہ مال و دولت نہیں تھی، مگر اس کے دل میں صبر، ہمت اور اللہ پر ایمان مضبوط تھا۔ وہ دن رات اپنی چھوٹی سی بچی کے ساتھ محنت کرتی تاکہ گھر کا گزر بسر ہو سکے۔
ایک دن فاطمہ کا چھوٹا بیٹا بیمار ہو گیا۔ بیماری اتنی شدید تھی کہ اس کی طبیعت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ فاطمہ کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تھے۔ محلے کے کچھ لوگ اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیتے اور کہتے،
"بیٹا بچانا مشکل ہے، اس میں اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔"
لیکن فاطمہ نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور ہر وقت دعا کرتی رہی کہ اللہ اس کے بیٹے کو شفا دے۔
فاطمہ نے اپنی روزی روٹی میں کٹوتی کی، چائے اور دیگر چھوٹی چھوٹی خواہشات کو چھوڑ دیا، اور جو کچھ بھی بچتا اسے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے جمع کرنے لگی۔ وہ دن بھر محنت کرتی اور رات کو جاگ کر اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی۔ اس کے آنسو نکلتے مگر وہ کبھی ہار نہیں مانی۔
محلے کے لوگ اس کی یہ حالت دیکھ کر شرمندہ ہوئے اور کچھ نے اپنی مدد کا ہاتھ بڑھایا، مگر وہ زیادہ دیر تک کافی نہیں تھا۔ پھر ایک دن بغداد کے ایک امیر تاجر کا گزر اس محلے سے ہوا۔ اس نے دیکھا کہ فاطمہ ایک کونے میں بیٹے کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے، تھک ہار کر پریشان حالت میں۔ تاجر نے اس سے بات کی اور فاطمہ کی کہانی سن کر اسے مالی مدد دی۔
فاطمہ نے تاجر کا شکریہ ادا کیا اور اپنے بیٹے کا علاج شروع کرایا۔ چند ہفتوں میں بیٹے کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔ وہ صحت مند ہو گیا اور گھر میں خوشیاں واپس آگئیں۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ زندگی میں مشکل وقت آتے ہیں، مگر اگر ہم صبر، ایمان اور ہمت سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے۔ کبھی بھی حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہر اندھیری رات کے بعد روشن دن آتے ہیں۔ انسان کو مشکلات میں بھی حوصلہ نہیں کھونا چاہیے اور اللہ پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں