اشاعتیں

جون, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ایران کی جوابی کارروائی — اسرائیل کی نیندیں اُڑ گئیں! کیا پاکستان نے کی کوئی معاونت؟ کیاایران نےاسرائیل کے لڑاکو جیٹس بھی گِرائئے؟

تصویر
ایران کی جوابی کارروائی — اسرائیل کی نیندیں اُڑ گئیں!کیا پاکستان نے کی کوئی معاونت؟ کیا ایران نے اسرائیل کے لڑاکا جیٹس بھی گرائے؟ ایران نے اسرائیل کی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے 13 جون کی رات اسرائیل کی سمت درجنوں میزائل داغے — ایک ایسا حملہ جس نے مشرقِ وسطی کی صورتِحال مزید کشیدہ کر دی۔ 🔹 حملے کی تفصیل 🔹 ایران نے مجموعی طور پر 150 سے زائد میزائل فائر کیے کچھ ڈرون بھی بھیجے گئے — جو براہ راست تل ابیب، ریشون لی زیون اور رامت گن کی رہائشی عمارتوں کی چھتیں چھوتے گئے۔ 🔹 انسانی جانیں اور نقصان 🔹 اسرائیل کی اطلاع کے مطابق کم از کم 2 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے ہیں — مزید املاک بھی تباہ ہو گئیں ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے کہا کہ اکثر میزائل آئرن ڈوم نے تباہ کر دیے تھے — لیکن جو گرے وہ بھی خوب تباہی مچا گئے۔ 🔹 ایران نے حملہ کیوں کیا؟ 🔹 ایران نے کہا کہ یہ حملہ محض انتقامی کارروائی تھا — کیونکہ اسرائیل نے پہلے ایران کی جوہری تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔اس کا مقصد اسرائیل کو پیغام دینا تھا کہ وہ مزید حملے کی جسارت نہ کرے۔ 🔹 کیا پاکستان نے ایران کی حمایت کی؟ 🔹 پاکستان نے سفا...

اسرائیل کا ایران پر حملہ کیا پاکستان کو بھی خطرہ ہے؟

تصویر
🔹 اسرائیل کا ایران پر حملہ: کیا ہو رہا ہے؟کیا پاکستان کو بھی خطرہ ہے؟   حملے کی تفصیل : 13 جون 2025 کو اسرائیل نے “رائزنگ لائن” نامی آپریشن کے تحت ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملے کیئے — جس میں 200 طیارے اور ڈرون استعمال ہوئے۔ اس حملے کی زد میں درج ذیل اہم شخصیات بھی آئیں: آئی آر جی سی کے سربراہ جنرل حسین سلامی چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری ڈپٹی کمانڈر غلامعلی رشید مشاورتی عہدے پر علی شمخانی جوہری سائنسدان فریدون عباسی اور محمد مہدی تہرانی — مجموعی طور پر 6 سینئر شخصیات کی ہلاکت کی اطلاع ملی۔ ● اسرائیل نے یہ حملہ کیوں کیا؟ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ پیشگی حملہ تھا کیونکہ ایران کا جوہری پروگرام مزید آگے کی سمت جا رہا تھا — بالخصوص نطنز کی تنصیبات کی توسیع کی جا رہی تھیں۔ --- ● ایران کا ردعمل ایران نے اسے “جنگ کا اعلان” قرار اور سخت جوابی کارروائی کی دھمکی دی — تقریباً 100 ڈرون اسرائیل کی سمت روانہ کیے گئے — تاہم اسرائیل نے اکثر ڈرون تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ ● پاکستان کا موقف پاکستان نے اسرائیل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے...

دفاعی بجٹ یا عوام کا درد؟

تصویر
دفاعی بجٹ یا عوام کا درد ؟   Marukhelk : تحریر ہر سال بجٹ آتا ہے، ٹی وی چینلز پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے، اخبارات کی شہ سرخیاں بنتی ہیں، وزراء تقریریں کرتے ہیں، لیکن جب ایک غریب ماں اپنے بچے کو بھوکا سُلاتی ہے، تو اُس کے لیے یہ بجٹ کے اعداد نہیں — وہ صرف ایک روٹی مانگتی ہے۔ اس سال بھی دفاعی بجٹ میں اربوں روپے رکھے گئے۔ ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے، ان کی قربانیاں ہمارے لیے قابلِ عزت ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ریڑھی والے کی دو وقت کی روٹی کیوں خواب بن گئی؟ کیا اُس کا درد بجٹ کا حصہ نہیں؟ کیا اُس کا جینا جرم ہے؟ عوام صرف ایک ہی فریاد کرتی ہے: ہمیں جینے کا حق دو! ہمیں تعلیم دو، دوا دو، روزگار دو، پانی دو، انصاف دو۔ اگر ایک باپ دن رات مزدوری کر کے بچوں کو پال رہا ہے، تو وہ بھی اپنے خاندان کا محافظ ہے — کیا وہ کم سپاہی ہے؟ سوال یہ ہے: ● کیا صرف ٹینک اور میزائل خرید کر ملک بچایا جا سکتا ہے؟ ● جب بچہ اسکول چھوڑ دے، تو کیا ہم ترقی کہہ سکتے ہیں؟ ● جب نوجوان بھوک سے خودکشی کرے، تو کیا بجٹ کامیاب ہے؟ یہ بجٹ عوام کا ہے یا ایوانوں کا؟ اشرافیہ کے دسترخوان بھر جائیں اور ...

ایک ماں کی آخری نصیحت ایک سبق آموز حقیقت

تصویر
عنوان: ایک ماں کی آخری نصیحت – ایک سبق آموز حقیقت تحریر: Marukh Elk ماں... ایک ایسا رشتہ جو نہ بدلتا ہے، نہ مٹتا ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کے چہرے پر ہنسی دیکھنے کے لیے خود ہر دکھ سہہ لیتی ہے۔ ماں کی دعائیں، اُس ک ی راتوں کی نیند، اُس کے لفظوں میں چھپا پیار — یہ سب بیش قیمت ہوتے ہیں۔ یہ کہانی ایک ایسے بیٹے کی ہے جو دنیا کی چمک دمک میں اتنا کھو گیا کہ اُس نے ماں کی محبت کو نظر انداز کر دیا۔ 📖 کہانی: ایک نوجوان، ایک بڑی کمپنی میں نوکری کرتا تھا۔ صبح سے شام تک کام، دوستوں کی محفلیں اور پھر رات گئے موبائل پر مصروف۔ اُسے یہ سب بہت اہم لگتا تھا، لیکن ایک شخص تھی جو روز اُس کی راہ تکتے تکتے تھک جاتی — اُس کی ماں۔ ماں اکثر کہتی: "بیٹا، کبھی میرے پاس بیٹھا کرو، دل بہل جاتا ہے۔" لیکن وہ کہہ کر نکل جاتا: "امی آپ کو کیا ہو گیا ہے، آج کل کس کے پاس وقت ہے؟" ماہ و سال یونہی گزرتے گئے۔ ایک دن ماں کی طبیعت شدید خراب ہو گئی۔ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا۔ ماں نے آخری بار اپنے بیٹے کو بلایا۔ بیٹا آیا تو سہی، مگر اُس کے ہاتھ میں اب بھی موبائل تھا۔ وہ جلدی میں تھا، کسی اہم...

اگر آپ اکیلی رہ جائیں تو رک جائیں گیاگر آپ کی طلاق ہو چکی ہے،اگر آپ بیوہ ہیں

 *"اگر آپ اکیلی رہ جائیں تو رک جائیں گی؟؟* اگر آپ کی طلاق ہو چکی ہے، اگر آپ بیوہ ہیں، اگر آپ معزور ہیں، اگر آپ کو ریجیکٹ کیا گیا ہے، منگنی ٹوٹی یا نکاح ٹوٹا، کچھ بھی نہیں ٹوٹا لیکن دل ٹوٹا گھر میں ہوتے ہوئے بھی کوئی قدر نہیں آپکی تو۔۔۔؟؟؟؟ تاریخ اٹھائیں اور پڑھیں ہاجرہ علیہ السلام کا واقعہ، الله کا حکم ہوا.شوہر چھوڑ آتا ہے صحرا میں ایک دودھ پیتے بچے کے ساتھ.صرف الله کے سہارے اور حکم بھی الله کا` کسی سے شکوہ کیا اس عظیم ہستی نے؟  ان کا تو ایمان تھا الله مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا۔ الله نے نہیں کیا ضائع۔ایسا مقام دیا کہ کسی کا وہ مقام ہی نہیں.  عورت اپنے آپ کو کمزور سمجھتی ہے لیکن الله جانتا ہے اس میں کتنی ہمت کتنا potential ہے کتنی صابر ہے  یہ الله نے مثال سیٹ کر دی نا ہمارے لیے کہ اگر تم الله کی رضا میں راضی ہو ، الله کے حکم پر صبر کرتی ہو ،اس راستے کی تکلیفیں سہتی ہو تو تمہارا مقام بہت بلند ہو گا الله تمہیں بھی ضائع نہیں کرے گا وہ عظیم ہستی صحراوں میں اکیلی ہے یعنی کوئی وسائل نہی کوئی انسان دلاسا دلانے والا نہیں  صحرا کبھی دیکھا ہے؟ اسکی تنہائی ہی انسان کو مار ...

بغداد کا واقعہ: صبر اور ہمت کا پھل

بغداد کے ایک چھوٹے سے محلے میں ایک غریب عورت رہتی تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ کے پاس زیادہ مال و دولت نہیں تھی، مگر اس کے دل میں صبر، ہمت اور اللہ پر ایمان مضبوط تھا۔ وہ دن رات اپنی چھوٹی سی بچی کے ساتھ محنت کرتی تاکہ گھر کا گزر بسر ہو سکے۔ ایک دن فاطمہ کا چھوٹا بیٹا بیمار ہو گیا۔ بیماری اتنی شدید تھی کہ اس کی طبیعت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ فاطمہ کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تھے۔ محلے کے کچھ لوگ اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیتے اور کہتے، "بیٹا بچانا مشکل ہے، اس میں اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔" لیکن فاطمہ نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور ہر وقت دعا کرتی رہی کہ اللہ اس کے بیٹے کو شفا دے۔ فاطمہ نے اپنی روزی روٹی میں کٹوتی کی، چائے اور دیگر چھوٹی چھوٹی خواہشات کو چھوڑ دیا، اور جو کچھ بھی بچتا اسے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے جمع کرنے لگی۔ وہ دن بھر محنت کرتی اور رات کو جاگ کر اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی۔ اس کے آنسو نکلتے مگر وہ کبھی ہار نہیں مانی۔ محلے کے لوگ اس کی یہ حالت دیکھ کر شرمندہ ہوئے اور کچھ نے اپنی مدد کا ہاتھ بڑھایا، مگر وہ زیادہ دیر تک کافی نہیں تھا۔...